* بظاہر میں تو مٹی کا دِیا ہوں *
بظاہر میں تو مٹی کا دِیا ہوں
مگر سب کو اُجالا بانٹتا ہوں
تمہیں تو مل گئی خوشیوں کی منزل
دوراہے پر غموں کے میں کھڑا ہوں
مرا رستہ نہ کوئی روک پایا
میں دریا ہوں ازل سے بہہ رہا ہوں
خدا نے چھین لی اُس کی خدائی
کیا تھا جس نے دعویٰ میں خدا ہوں
تمہارے سو خدا ہوں گے تو ہوں گے
مگر میں اک خدا کو پوجتا ہوں
وہی کرتا ہے مجھ سے بے وفائی
دل و جاں سے میں جس کو چاہتا ہوں
مٹاتا ہے زمانہ تو نہیں غم
ہزاروں بار میں مٹ کر بنا ہوں
مجھے مشتاقؔ کیوں مرنے کا ڈر ہو
کہ میں تو زہر پی کر جی رہا ہوں
******************* |