غموں کا بوجھ لئے ، بارِ حادثات لئے
میں جی رہا ہوں مسائل کی کائنات لئے
گھرے ہوئے ہیں زمانے کی مشکلوں میں ہم
تم آ بھی جائو کوئی صورتِ نجات لئے
عجیب یہ بھی ترا طرزِ بے نیازی ہے
کہ تو ہے میرے تئیں رنگِ التفات لئے
کرے گا کیسے وہ مشکل کشائی میری بھلا
پڑا ہوا ہے جو خود اپنی مشکلات لئے
سمجھ نہ پائے کبھی ایک دوسرے کی بات
تم اپنی بات لئے ہو ہم اپنی بات لئے
میں اُن سے کھل کے کبھی گفتگو نہ کرپایا
ملے وہ جب بھی تو رسمِ تکلفات لئے
کہاں کہاں سے نہ گزرا جہاں میں میں مشتاقؔ
خیال و فکر کی تصویر اپنے ساتھ لئے
*************