سمندروں کی تہوں میں جو ہاتھ ڈالے گا
صدف کی کوکھ سے موتی وہی نکالے گا
تمام عمر جو ماں کا کہا نہ ٹالے گا
مجھے یقیں ہے وہ جنت میں گھر بنالے گا
ستم کی زد سے یقینا مجھے بچالے گا
خدا خدا ہے کوئی راستہ نکالے گا
ہزار بار گرا ہے وہ ٹھوکریں کھاکر
جو خود سنبھل نہ سکا کیا مجھے سنبھالے گا
جو اپنے پرکھوں کے اعمال سے نہیں واقف
وہ خاندان کی عزت کو بیچ ڈالے گا
تلا ہوا ہے جو گھر کو مرے جلانے پر
مجھے ہے خوف کہ وہ اپنا گھر جلالے گا
کبھی وہ ماںکے شکم میں اُتارے گا خنجر
کبھی وہ نیزوں پہ بچوں کے سر اچھالے گا
جواب دے نہیں پائے گا بے عمل عالم
بروز حشر حساب اُس کا جب خدا لے گا
جو پیش آئے گا مشتاقؔ انکساری سے
وہ دشمنوں کے دلوں میں بھی گھر بنالے گا
*********************