* تشنگی میری بھلا کیسے بجھاتا دریا *
تشنگی میری بھلا کیسے بجھاتا دریا
سامنے تھا جو مرے پیاس کا مارا دریا
آپ نے خونیں مناظر کے سنے ہیں قصّے
میری آنکھوں نے تو دیکھا ہے لہو کا دریا
گامزن ہم بھی رہیں آبِ رواں کی صورت
ہم کو تلقین یہ کرتا رہا بہتا دریا
صحرا صحرا اُسے جب ڈھونڈ کے ہم ہار گئے
پھر اُسے ڈھونڈتے پھرتے رہے دریا دریا
آج دریا کی نگاہوں میں ہے اک قطرہ حقیر
قطرہ قطرہ ہی تو مل جل کے ہوا تھا دریا
اُس میں نفرت کا بھنور تو کبھی پلتا ہی نہیں
میرے سینے میں جو ہے پیار کا بہتا دریا
ڈوبتے کشتی کو دریا میں تو دیکھا سب نے
ہم نے دیکھا ہے کہ کشتی میں بھی ڈوبا دریا
آج بہتا ہے وہ خطرے کے نشاں سے اوپر
کل تلک تھا جو مرے گائوں میں سوکھا دریا
میرے ہونٹوں پہ تبسم کی جھلک تھی مشتاقؔ
آنسوئوں کا مری آنکھوں میں چھپا تھا دریا
****************** |