* محصور کر نہ پائے گی افسردگی مجھے *
محصور کر نہ پائے گی افسردگی مجھے
رکھتی ہے تازہ دم مری زندہ دلی مجھے
منزل کا ہے پتہ نہ خبر راہ کی مجھے
لے جائے اب جہاں مری آوارگی مجھے
میں ہر جگہ ہوں تیری صدائوں کا منتظر
آواز دے جہاں سے تو اے زندگی مجھے
میں کیسے انتظار کروں اُس کا ایک دن
لگتا ہے ایک لمحہ بھی اب اک صدی مجھے
یوں مدتوں کے بعد ہوا اُن کا سامنا
وہ دیکھتے ہیں خود کو کبھی اور کبھی مجھے
ملتا ہے ہنس کے جب کوئی انجانے شہر میں
اپنوں کی طرح لگتا ہے وہ اجنبی مجھے
ہوکر خودی سے دور یہ احساس اب ہوا
لے آئی کس جگہ پہ مری بے خودی مجھے
ملتا جہاں ہے بھیک میں رندوں کو جامِ جم
جانے سے روکتی ہے وہاں تشنگی مجھے
ہر گوشۂ حیات کا ہو جس میں تذکرہ
مشتاقؔ ہے پسند وہی شاعری مجھے
*********************** |