* یہ کیسا ماجرا اے گردشِ ایام ہوتا ہ *
یہ کیسا ماجرا اے گردشِ ایام ہوتا ہے
خطا کرتا ہے کوئی اور کوئی بدنام ہوتا ہے
بقدرِ ظرف پیتا ہے کوئی ساقی کی نظروں سے
بنامِ میکشی کوئی غریقِ جام ہوتا ہے
محبت نام ہے یارو مسلسل بے قراری کا
دلِ بیتاب کی قسمت میں کب آرام ہوتا ہے
خلش، بے چینیاں، سوزِ جگر اور اضطرابِ دل
انہیں کیفیتِ غم کا محبت نام ہوتا ہے
کوئی آتا ہے دنیا میں کوئی جاتا ہے دنیا سے
تماشا روزِ اول سے یہ صبح و شام ہوتا ہے
کمی ہوتی ہے جس انسان میں خود اعتمادی کی
وہی اپنے ارادوں میں سدا ناکام ہوتا ہے
ہوئی عبرت یہ حاصل مصر کے فرعون سے ہم کو
تکبّر کرنے والوں کا بُرا انجام ہوتا ہے
کوئی مشتاقؔ ہم کو مسکراکر دیکھتا ہے جب
ہمارے واسطے وہ عید کا پیغام ہوتا ہے
********************* |