* کچھ اِتنی چوٹ دل نے کھائی ہے عاشقی *
کچھ اِتنی چوٹ دل نے کھائی ہے عاشقی میں
آنسو نکل پڑے ہیں اکثر ہنسی ہنسی میں
کچھ بھی کہے زمانہ میرا یہ تجربہ ہے
خوشیوں کے ساتھ غم بھی آئے ہیں زندگی میں
راہِ حیات میں وہ کھاتا ہے ٹھوکریں جب
تب کچھ شعور پیدا ہوتا ہے آدمی میں
جو ٹوٹ پھوٹ میرے اندر مچی ہوئی ہے
سازش یہ ہے تمہاری میری شکستگی میں
سرگوشیاں فضا کی گیتوں میں ڈھل رہی ہیں
مہتابِ نیم شب کی پُرکیف چاندنی میں
ظاہر نہ کردے اُس کو میری زباں کسی دن
وہ بات جو چھپی ہے مدت سے میرے جی میں
مانا کہ ہیں جہاں میں شہکار کیسے کیسے
رعنائیاں تمہاری لیکن کہاں کسی میں
کل تک جو ولولے تھے آہوں میں ڈھل گئے ہیں
اب نغمگی کہاں وہ مشتاقؔ شاعری میں
***************** |