* کھلے ہیں پھول ادب کے جس پہ وہ دامن ن *
کھلے ہیں پھول ادب کے جس پہ وہ دامن نہ بیچیں گے
بلا سے کچھ بھی ہو نغموں کا ہم گلشن نہ بیچیں گے
نظر آتی ہے جس میں زندگی کی موہنی صورت
کسی قیمت پہ ہم اے دوست وہ درپن نہ بیچیں گے
گزاریں گے ہم اپنی زندگی کانٹوں کے بستر پر
مگر گلچیں کے ہاتھوں پیار کا گلشن نہ بیچیں گے
بہاکر خوں پسینہ جن کو دو روٹی نہیں ملتی
غیور انساں وہی تو ہیں وہ اپنا تن نہ بیچیں گے
اِنہیں ناموس کا اپنی بہت ہی پاس ہے یارو
یہ خوباں نکہتِ گیسو و پیراہن نہ بیچیں گے
تمہاری عنبریں زلفوں کی بھینی بھینی خوشبو سے
معطر ہے ہمارے دل کا جو آنگن نہ بیچیںگے
قسم کھائی ہے اربابِ قلم کے روبرو ہم نے
کہ اے مشتاق اپنا سازِ نغمہ زن نہ بیچیں گے
******************** |