* کسی کے روکے سے رکتا ہے کب بھلا پانی *
کسی کے روکے سے رکتا ہے کب بھلا پانی
بنا ہی لیتا ہے خود اپنا راستہ پانی
دکھائی ابر نے دریا دلی جو اب کے برس
ہزاروں گائوں کو دریا بنا گیا پانی
یہ کس نے مانگی دعا تشنگی کے عالم میں
تمام شہر میں برسا گئی گھٹا پانی
جو کررہا تھا غرور اپنی شان و شوکت پر
اب اُس کے چہرے کا دیکھو اُتر گیا پانی
بہار آئے تو خط لکھ کے تم بلا لینا
اسی بہانے تو بدلے ذرا ہوا پانی
ستم تو دیکھئے آئے وہ کب عیادت کو
ہمارے جسم کا جب خون بن گیا پانی
میں دشت دشت بھٹکتا رہا مگر مشتاقؔ
ملا نہ مجھ کو سرِ جادۂ وفا پانی
***************** |