* کشیدہ ہوں اگر حالات نفرت کی گھٹا چ *
کشیدہ ہوں اگر حالات نفرت کی گھٹا چھائے
تو پھر امن و اماں کا چاہنے والا کہاں جائے
مرے کانوں سے ٹکراتی ہوں جب مظلوم کی آہیں
پپیہے مجھ کو تیری یہ مدھر آواز کیا بھائے
ہے اُس کے شہر میں کرفیو لگا اُس سمت مت جانا
کبھی میں دل کو سمجھائوں کبھی دل مجھ کو سمجھائے
یہ کتنا جان لیوا فرقہ وارانہ تشدد ہے
کسی کی مانگ اجڑ جائے کسی کی آبرو جائے
ملوث غیر ہوتے تو ذرا بھی غم نہیں ہوتا
مرا گھر لوٹنے والوں میں تھے میرے ہی ہمسائے
یہ دل ہی جانتا ہے دل پہ اُس دم کیا گزرتی ہے
کوئی جب دور سے میٹھے سُروں میں راگنی گائے
سہانی چاندنی شب کا سماں اچھا نہیں لگتا
ترستی ہی رہیں آنکھیں نہ خط آیا نہ تم آئے
اسیرِ گردشِ دوراں رہے مشتاقؔ ہم لیکن
کسی زردار کے آگے کبھی دامن نہ پھیلائے
*************** |