* کیسے کہوں کہ آج میں تنہا نہیں رہا *
کیسے کہوں کہ آج میں تنہا نہیں رہا
سر پر مرے بزرگوں کا سایہ نہیں رہا
اک دوسرے سے ملتے ہیں یوں تو سبھی مگر
لوگوں میں اب خلوص کا جذبہ نہیں رہا
قائم تھا اتحاد تو سیلِ رواں تھا کل
قطروں میں بٹ کے آج وہ دریا نہیں رہا
بیشک اُسی کا سایہ ہے کل کائنات پر
وہ شخص جس کے جسم کا سایہ نہیں رہا
سب کو گلے لگاتی ہے اپنائیت مری
میری نظر میں کوئی پرایا نہیں رہا
دیکھا جو پہلی بار اُنہیں ، اُن کے ہوگئے
اب دل پہ اختیار ہمارا نہیں رہا
تہذیبِ نو کی جب سے ردا اُس نے اوڑھ لی
شرم و حیا کا سر پہ دوپٹہ نہیں رہا
مشتاقؔ سارے خواب تو اُس نے چرا لئے
آنکھوں میں میری اب کوئی سپنا نہیں رہا
******************* |