* جب زندگی کے طور طریقے بدل گئے *
جب زندگی کے طور طریقے بدل گئے
تہذیبِ نو کے سانچے میں سب لوگ ڈھل گئے
ہر روز جانے کتنے مکینوں کا خوں بہا
کتنے مکاں فساد کے شعلوں میں جل گئے
تھے میری آرزوئوں کے سرسبز باغ جو
افسوس آج برقِ تپاں کو وہ کھل گئے
بدلا کچھ اس طرح سے مرے ملک کا نظام
پیچھے جو چل رہے تھے وہ آگے نکل گئے
قائم رہے ہمیشہ جو اپنے اصول پر
اپنے مفاد کے لئے وہ بھی پھسل گئے
دریا دلی پہ جن کی غریبوں کو ناز تھا
اب مصلحت کے سانچے میں وہ لوگ ڈھل گئے
مشتاقؔ میرے ملک میں یوں آیا انقلاب
ہر شعبۂ حیات کے منظر بدل گئے
************** |