* جی بھر کے دیکھ پائے جو ایسا کوئی تو *
جی بھر کے دیکھ پائے جو ایسا کوئی تو ہو
مشتاقِ دیدِ جلوۂ زیبا کوئی تو ہو
میں بھی کسی کے دل میں سمائوں بصد خلوص
میرے نصیب کا بھی ستارا کوئی تو ہو
ہے اجنبی یہ شہر کسے حالِ دل سنائوں
دکھ درد میرا بانٹنے والا کوئی تو ہو
اے زندگی میں کس کو دکھائوں یہ دل کے زخم
اِس قلبِ خونچکاں کا مسیحا کوئی تو ہو
میں نورِ بے مثال کی تشبیہ کس سے دوں
اُس حسنِ لازوال کے جیسا کوئی تو ہو
بھرلوں میں اُس کے سارے مناظر نگاہ میں
لیکن نظر نواز نظارا کوئی تو ہو
مشتاقؔ فکر و فن کی میں اب کس سے داد لوں
مداح میرے رنگِ غزل کا کوئی تو ہو
***************** |