* کوئی فاتح ہو نہیں سکتا کبھی تلوار *
کوئی فاتح ہو نہیں سکتا کبھی تلوار سے
کامیابی تو ملے گی جذبۂ ایثار سے
وصل کی اُمید نے دل کو سہارا دے دیا
میں ہوا بیتاب جب دردِ فراقِ یار سے
شکل و صورت سے کوئی اچھا بُرا ہوتا نہیں
آدمی اچھا برا ہوتا ہے بس کردار سے
جب تصور میں مرے رہتا ہے جلوہ آپ کا
دل کو ملتی ہے رہائی درد کے آزار سے
کتنے ارماں پل رہے تھے اس دلِ معصوم میں
ریزہ ریزہ ہوگیا ضربِ نگاہِ یار سے
مجھ کو غم ہائے جہاں سے کاش مل جاتی نجات
کھیلتا میں بھی تمہارے گیسو و رخسار سے
اُس کی لاٹھی میں کوئی آواز ہوتی ہی نہیں
ہوش میں آ اے ستمگر ، ڈر خدا کی مار سے
کون اس دنیائے فانی میں رہے گا تا ابد
ہم بھی ہوجائیں گے رخصت ایک دن سنسار سے
بھیڑ میں خبروں کی روز و شب گھرا رہتا ہوں میں
ہے تعلق میرا بھی مشتاقؔ اک اخبار سے
********************* |