* جب سے وہ چشمِ مے فشاں چپ ہے *
جب سے وہ چشمِ مے فشاں چپ ہے
آرزوئوں کا اک جہاں چپ ہے
جو ہے انصاف کا علم بردار
جھوٹ اور سچ کے درمیاں چپ ہے
جان آفت میں ڈال کر سب کی
آج وہ میرِ کارواں چپ ہے
دیکھ کر میرے عزم محکم کو
وقت کا تیس مار خاں چپ ہے
اُس کی آتش بیانیاں سُن کر
ملک کا میرے حکمراں چپ ہے
میری آہیں گراں ہوئی ہیں کیا؟
آج کیوں بزمِ دوستاں چپ ہے
ہے فضا میں مہیب سناٹا
یہ زمیں چپ ہے آسماں چپ ہے
جب سے چپ ہوگئے ہیں ہم مشتاقؔ
چپ کہانی ہے ، داستاں چپ ہے
********************* |