* میری نگاہ سے وہ اگرچہ چھپا رہا *
میری نگاہ سے وہ اگرچہ چھپا رہا
میں اُس کو چشم دل سے مگر دیکھتا رہا
اُس حسنِ بے پناہ کا شیشہ نما بدن
سنگِ نظر کے خوف سے سہما ہوا رہا
جب تک وہ بے نقاب رہا میرے سامنے
ماہِ شبِ تمام بھی پھیکا پڑا رہا
ہجرت کا کرب دل میں لئے اپنے شہر کو
حسرت بھری نگاہ سے میں دیکھتا رہا
ہر لمحہ موت میرے تعاقب میں تھی مگر
میں زندگی کے ساز پہ نغمہ سرا رہا
تم بھی مرے خیال میں اُلجھے ہوئے رہے
میں بھی تمہاری یاد میں کھویا ہوا رہا
دولت ملی تو آج خدا بن گیا ہے وہ
کل جو خدا کے سامنے بندہ بنا رہا
مشتاقؔ کیسے دیکھتا میں اُس کو اشک بار
ہونٹوں پہ میرے بن کے جو حرفِ دعا رہا
****************** |