* گھر سے جو لے کے ماں کی دعا ہم نکل گئے *
گھر سے جو لے کے ماں کی دعا ہم نکل گئے
رستے میں جو بھی حادثے آئے وہ ٹل گئے
اے میرے دوست کیسے تجھے آگئی ہنسی
ہنسنا جو میں نے چاہا تو آنسو نکل گئے
ٹھوکر جو تم نے کھائی ، سنبھالا گیا تمہیں
ٹھوکر لگی ہمیں بھی مگر خود سنبھل گئے
حیرت سے کیوں نہ دیکھے ہمیں میرِ کارواں
ہم میرِ کارواں سے بھی آگے نکل گئے
کچھ لوگ تھک کے بیٹھ گئے تیری راہ میں
ہم بھی تھکے ہوئے تھے مگر سر کے بل گئے
پیدا نہ ہونے پائے تھے دنیا میں جو ابھی
وہ بچے بھی فساد کے شعلوں میں جل گئے
میری فغاں کا اُس پہ نہ کچھ بھی اثر ہوا
حالانکہ میری آہ سے پتھر پگھل گئے
مشتاقؔ مفلسی میں قناعت بھی آگئی
ٹوٹے کھلونوں سے مرے بچے بہل گئے
******************* |