* اسیرِ گردشِ ایام ہوں میں اک زمانے *
اسیرِ گردشِ ایام ہوں میں اک زمانے سے
کلیجہ کانپ جاتا ہے ذرا سا مسکرانے سے
دلِ بیتاب نے آخر مجھے رسوائیاں بخشیں
تبسم کا بھرم جاتا رہا آنسو بہانے سے
ہماری خستہ حالی پر بھی آکر اک نظر ڈالو
اگر تم کو ملے فرصت کبھی ہنسنے ہنسانے سے
نشیمن کو مرے پھونکا گیا تھا مدتوں پہلے
دھواں اٹھتا ہے لیکن اب بھی میرے آشیانے سے
سنو اے ظالمو! ظلم و ستم سے باز آجائو
خدا ناراض ہوتا ہے کسی پر ظلم ڈھانے سے
خرامِ ناز پر اُن کے بہاریں رقص کرتی ہیں
چمن میں پھول کھل اٹھتے ہیں اُن کے مسکرانے سے
ہمیں چشمِ حقارت سے نہ دیکھو اے جہاں والو
تعلق ہے ہمارا بھی کسی اونچے گھرانے سے
خدا سے مانگ لے مشتاقؔ تو بھی ہاتھ پھیلاکر
بقدرِ ظرف ملتا سب کو ہے اُس کے خزانے سے
******************** |