* اُن کو خدا نے حسن کا پیکر بنا دیا *
اُن کو خدا نے حسن کا پیکر بنا دیا
مجھ کو اسیرِ زلفِ معنبر بنا دیا
قدرت کی بے مثال یہ صناعی دیکھئے
اک قطرۂ حقیر کو گوہر بنا دیا
بخشا گیا اندھیرا کسی کے نصیب میں
روشن کسی کا اُس نے مقدر بنا دیا
رحم و کرم کا جذبہ نہ پائوگے اُس میں تم
ظالم کے دل کو ظلم نے پتھر بنا دیا
خود مٹ کے ہم نے کردیا مقبول عام اُنہیں
ہر دل میں اُن کے واسطے اک گھر بنا دیا
کہتا رہا جو جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ
لوگوں نے اُس کو قوم کا رہبر بنا دیا
گزرا ہے قتل و خون کا وہ دور شہر میں
تیغِ ستم نے کتنوں کو بے سر بنا دیا
دار و رسن کا کرنے لگے اہتمام لوگ
حق گوئی نے جو مجھ کو پیمبر بنا دیا
پروردگار کا مرے فضل و کرم ہے یہ
مشتاقؔ مجھ کو اُس نے سخنور بنا دیا
*************** |