* قدم رکھتے ہی محفل میں تری اُلٹے قد *
قدم رکھتے ہی محفل میں تری اُلٹے قدم نکلے
تجھے معلوم کیا ہم دل میں لے کر کتنے غم نکلے
ہمارے شہر میں کھیلی گئی جب خون کی ہولی
نہ نکلے دیر سے پنڈت نہ ملّائے حرم نکلے
ہمیں دھوکے دئے ہیں خود ہماری خوش گمانی نے
محبت جن سے کی ہم نے وہ پتھر کے صنم نکلے
اِسی حسنِ تصور کے سہارے جی رہے ہیں ہم
کب آئو تم پیامِ مرگ لے کر کب یہ دم نکلے
ترے فیض و کرم سے کوئی بھی خالی نہیں لوٹا
ہمیں خوددار تھے ایسے جو محرومِ کرم نکلے
بہت مشہور تھی ساقی تری دریا دلی لیکن
گئے پیاسے ترے میخانے میں اورپیاسے ہم نکلے
ہوئے کچھ اور بھی ان سے مسائل دل کے پیچیدہ
تمہاری کاکلِ شب گوں میں جتنے پیچ و خم نکلے
یہی مشتاقؔ میرے دل کی دیرینہ تمنا ہے
جب آئے موت تو محبوب کی چوکھٹ پہ دم نکلے
*************** |