* اُن کے سر سے دکھ کے سائے ٹل گئے *
اُن کے سر سے دکھ کے سائے ٹل گئے
اور ہم سانچے میں غم کے ڈھل گئے
میرے ارمانوں کے سارے گلستاں
جانے کیوں برقِ تپاں کو کھل گئے
روتے روتے کوئی پہنچا دار تک
ہنستے ہنستے ہم سوئے مقتل گئے
آشیاں جلنے کا مجھ کو غم نہیں
غم تو یہ ہے بال و پر بھی جل گئے
سامنے جب آئے ہم خنجر بکف
حوصلے یہ دشمنوں کو کھل گئے
نفرتوں کی آگ جب بھڑکی یہاں
جو بھی اِس کی زد میں آئے جل گئے
چلتے چلتے کوچۂ محبوب میں
تھک گئے جب پائوں ، سر کے بل گئے
گائوں والوں نے اُنہیں پوچھا نہیں
شہر میں سب کھوٹے سکّے چل گئے
مجھ پہ تھی ماں کی دعا سایہ فگن
حادثے مشتاقؔ سر سے ٹل گئے
*************** |