* قافلے والو چلو ، چلتے رہو ، آگے بڑھ *
قافلے والو چلو ، چلتے رہو ، آگے بڑھو
چھائوں راحت کی بلاتی ہے تو رکتے کیوں ہو
ہم غریبوں کا جو دکھ درد ہے تم کیا جانو
شیش محلوں میں اے آرام سونے والو
گائوں والوں کو بھی اب چین کہاں ہے حاصل
قافلے درد کے اترے ہیں یہاں بھی دیکھو
ظلمتِ جبر و ستم پھیل رہی ہے ہرسو
عافیت کا کہیں اب جاکے اُجالا ڈھونڈو
ٹوٹ جائے نہ کہیں ہے یہ بڑا ہی نازک
شیشۂ دل پہ نہ تم طنز کے پتھر پھینکو
ہر طرف گھات میں بیٹھے ہیں درندے چھپ کر
گھر سے نکلو تو بہت سوچ سمجھ کر نکلو
اِس سے پہلے کہ کوئی ہاتھ میں تلوار اٹھائے
اُس کے خونریز عزائم ہی کو غارت کردو
پاکے مسند وہ غریبوں کا بھلا چاہے گا
رہنمائوں سے نہ مشتاقؔ یہ امید رکھو
************** |