* کیا جانے کس کی یاد میں کھویا ہوں ان *
کیا جانے کس کی یاد میں کھویا ہوں ان دنوں
آنکھیں بچھائے راہ میں بیٹھا ہوں ان دنوں
مانا کہ آپ سے میں بہت دور ہوں مگر
اپنے قریب آپ کو پاتا ہوں ان دنوں
زلفوں کی چھائوں جانے مجھے کب نصیب ہو
صحرائے آرزو میں بھٹکتا ہوں ان دنوں
کانٹوں کا شکوہ اب مرے ہونٹوں پہ آئے کیا
پھولوں کے زخم کھاکے فسردہ ہوں ان دنوں
سب دیکھتے ہیں مجھ کو تماشائی کی طرح
اے زندگی میں بن کے تماشا ہوں ان دنوں
اپنوں سے بڑھ کے میں رہا جس کی نگاہ میں
اُس کی نظر میں اب میں پرایا ہوں ان دنوں
اے کاش آکے مجھ کو لگالے گلے کوئی
میں زندگی کی بھیڑ میں تنہا ہوں ان دنوں
مشتاقؔ اپنے دل میں چھپائے وطن کی یاد
اپنے وطن سے دور میں رہتا ہوں ان دنوں
******************* |