* دولتِ بے انتہا پاکے کوئی رنجور ہے *
دولتِ بے انتہا پاکے کوئی رنجور ہے
اور کوئی مفلسی کے حال میں مسرور ہے
اپنے اپنے کام پر ہر آدمی مامور ہے
کارزارِ زندگانی کا یہی دستور ہے
دہر میں اک بوند پانی کو ترستا ہے کوئی
اور کسی کے جام جم میں بادۂ انگور ہے
شام ہوتے ہی تھکن کرتی ہے مجھ سے یہ سوال
اے مسافر تیری منزل اور کتنی دور ہے
اُس کو بھی گھیرے ہوئے ہے رنج و غم کی آندھیاں
چھین کر میری خوشی وہ بھی کہاں مسرور ہے
موت آئے گی نہ جب تک مر نہیں سکتا کوئی
آدمی دنیا میں جینے کے لئے مجبور ہے
بخش دے کوئی اجالا کاش اپنے حسن کا
کب سے اس دل میں چراغِ آرزو بے نور ہے
مجھ کو خوشیوں کے فسانے مت سنا اے ہمنشیں
شدتِ غم ہائے دوراں سے مرا دل چور ہے
جس سے اے مشتاقؔ میں رکھتا ہوں امیدِ کرم
آج تک ناراض مجھ سے وہ بُتِ مغرور ہے
*************** |