* اٹھی جب حسن کی برقِ نظر آہستہ آہست *
اٹھی جب حسن کی برقِ نظر آہستہ آہستہ
ہمارا دل ہوا زیر و زبر آہستہ آہستہ
تری یادوں کے موتی قطرۂ شبنم کی صورت میں
مری آنکھوں سے ٹپکے رات بھر آہستہ آہستہ
وہ آئے زندگی میں جب شریکِ زندگی بن کر
ہوئی طے زندگی کی رہ گزر آہستہ آہستہ
چھپا رکھا تھا رازِ عشق میں نے اپنے سینے میں
مگر ہو ہی گئی سب کو خبر آہستہ آہستہ
بھلا دنیا میں اُن کو میرا قاتل کون سمجھے گا
مجھے وہ قتل کرتے ہیں مگر آہستہ آہستہ
رہِ الفت میں ہم دونوں بھلاکر تلخیاں ساری
ہوئے جاتے ہیں اب شیر و شکر آہستہ آہستہ
جہاں میں آدمی اخلاق سے دل موہ لیتا ہے
بنا لیتا ہے وہ ہر دل میں گھر آہستہ آہستہ
یہ کس نے رکھ دیا دستِ محبت میرے سینے پر
ہوا جاتا ہے کم دردِ جگر آہستہ آہستہ
شبِ تاریک سے مشتاقؔ تم مایوس مت ہونا
اندھیروں سے ابھرتی ہے سحر آہستہ آہستہ
************* |