* ہیں مبتلائے جنگ و جدل اِس جہاں کے ل *
ہیں مبتلائے جنگ و جدل اِس جہاں کے لوگ
حیرت سے کیوں نہ دیکھیں اِنہیں آسماں کے لوگ
امن و اماں فساد کے شعلوں میں جل گیا
دہشت زدہ ہیں آج بھی میرے یہاں کے لوگ
ادنیٰ و اعلیٰ حال پہ ہیں اپنے مطمئن
مشکل سے جی رہے ہیں مگر درمیاں کے لوگ
دکھ سکھ میں بھی خلوص سے ملتے نہیں کبھی
نیچے مکان والوں سے اونچے مکاں کے لوگ
محفوظ کیسے رکھوں میں اپنے وجود کو
دشمن بنے ہوئے ہیں یہاں میری جاں کے لوگ
یہ سانحہ بھی دیکھا ہے میری نگاہ نے
گلشن کو پھونک دیتے ہیں خود گلستاں کے لوگ
گزرے نہیں یقین کی منزل سے وہ ابھی
مشتاقؔ معتقد ہیں جو وہم و گماں کے لوگ
*************** |