* سرپھری موجوں کے تن پر چاندنی اچھی *
سرپھری موجوں کے تن پر چاندنی اچھی لگی
مجھ کو اپنے گائوں کی جل تھل ندی اچھی لگی
دشمنوں نے تو ستم ڈھائے ہیں مجھ پر بے حساب
مجھ کو لیکن دوستوں کی دشمنی اچھی لگی
آگیا جب ذکر اُن کے گیسو و رخسار کا
عشق میں ڈوبی ہوئی وہ شاعری اچھی لگی
ڈس رہی تھیں مجھ کو شامِ ہجر کی تنہائیاں
زندگی میں جب وہ آئے زندگی اچھی لگی
مسکراکر جب کسی نے پیار سے دیکھا مجھے
پھول جیسے اُس کے ہونٹوں پرہنسی اچھی لگی
جن کو اپنے بھائیوں کی آبرو کا پاس تھا
مجھ کو اُن بہنوں کے سر پر اوڑھنی اچھی لگی
سب کو اے لیلیٰ ترا اچھا لگا اندازِ عشق
مجھ کو تیرے عشق کی پاکیزگی اچھی لگی
دیکھتے ہی وہ مجھے پہلی نظر میں بھاگیا
بھولی بھالی اس کی صورت واقعی اچھی لگی
مجھ کو اے مشتاقؔ اماوس کی اندھیری رات میں
جلتے بجھتے جگنوئوں کی روشنی اچھی لگی
***************** |