* میرے دستِ تشنگی میں کوئی جام تک نہ *
میرے دستِ تشنگی میں کوئی جام تک نہ آیا
تیرے میکشوں میں ساقی مرا نام تک نہ آیا
میں کروں یقین کیسے کہ وہ مجھ کو چاہتے ہیں
کبھی لے کے اُن کا قاصد تو سلام تک نہ آیا
میرے ہم سفر کو مجھ سے یہ سدا رہی شکایت
کہ میں لوٹ کر گھر اپنے کبھی شام تک نہ آیا
کوئی اُس کی رہنمائی کا اٹھائے فیض کیوں کر
کہ جو رہنما نکل کر رہِ عام تک نہ آیا
اُسے چاند کے بہانے کبھی ہم بھی دیکھ پاتے
وہ نقابِ رُخ اٹھاکر کبھی بام تک نہ آیا
تھی یہ آرزو سناتا اُنہیں دل کا حال لیکن
کبھی میری زندگی میں وہ مقام تک نہ آیا
رہا قاتلوں کی صف میں وہ تمام عمر مشتاقؔ
مگر اُس کا قاتلوں میں کبھی نام تک نہ آیا
*************** |