* تصور میں کبھی پہلو نشیں جب اُس کو پ *
تصور میں کبھی پہلو نشیں جب اُس کو پاتا ہوں
تو میں سارے غم و آلام اپنے بھول جاتا ہوں
بڑے ہوں گے تو میرے بال بچے بھول جائیں گے
میں جن کے واسطے خونِ جگراپنا بہاتا ہوں
ترقی کی تمنا ہے تو کر جہدِ عمل پیہم
یہی ہے تجربہ میرا جو میں تجھ کو بتاتا ہوں
مشینیں بھی مجھے باچشمِ حیرت دیکھتی ہوں گی
کہ کتنی سخت محنت کرکے دو پیسے کماتا ہوں
خیال آتا ہے جاکر توڑ لائوں چاند تاروں کو
زمیں پہ رہ کے میں اوقات اپنی بھول جاتا ہوں
تری زلفوں کی ٹھنڈی چھائوں مجھ کو یاد آتی ہے
غموں کی چلچلاتی دھوپ میں جب خود کو پاتا ہوں
وہی مشتاقؔ میری مفلسی کی لاج رکھے گا
بصد اخلاص جس کے آگے سر اپنا جھکاتا ہوں
*********** |