* پیار کی خوشبو سے تھا مہکا ہوا سارا *
پیار کی خوشبو سے تھا مہکا ہوا سارا بدن
میری آنکھوں میں ہے رقصاں آج بھی اُس کا بدن
کام جو انجام دیتے ہیں عبادت کی طرح
ہے مقدس ایسے لوگوں کا تھکا ماندہ بدن
بند کمرے میں ہوا اہلِ ہوس کا وہ شکار
سننے والا کون تھا فریاد کیا کرتا بدن
جب چمن کی سیر کو آیا پری پیکر کوئی
گل بدامانِ بہاراں بن گیا اُس کا بدن
روح افزا ہے جمال اُس غیرت ناہید کا
پیار آئے کیوں نہ اُس کا دیکھ کر پیارا بدن
آدمی کی آدمیت پر نظر میری رہی
میں بھلا کیوں دیکھتا گورا بدن کالا بدن
ہے یہی مشتاقؔ پونجی ہم غریبوں کے لئے
ہاتھ محنت کے ہمارے اور مشقت کا بدن
*************** |