* عارضی یہ حیات لگتی ہے *
عارضی یہ حیات لگتی ہے
دائمی تیری ذات لگتی ہے
اُن کے ہونٹوں سے جو ادا ہوجائے
کتنی شیریں وہ بات لگتی ہے
جب بھی آتے ہیں وہ تصور میں
مہکی مہکی حیات لگتی ہے
راہ دکھلائی جو بزرگوں نے
مجھ کو راہِ نجات لگتی ہے
خونِ انساں میں غرق یہ دنیا
مثلِ نہرِ فرات لگتی ہے
بات کرتا ہو جو سلیقے سے
بات اُس کی ہی بات لگتی ہے
آئینے میں وہ جب سنورتے ہیں
خوشنما کائنات لگتی ہے
آج کے ایٹمی زمانے میں
زندگی گھاس پات لگتی ہے
فکر کل کی کریں نہ کیوں مشتاقؔ
زندگی بے ثبات لگتی ہے
**************** |