* جس چہرے کو دیکھوں مجھے اپنا سا لگے *
جس چہرے کو دیکھوں مجھے اپنا سا لگے ہے
یہ شہر مجھے شہرِ تمنا سا لگے ہے
کل تک تھا وہ ناراض تو لگتا تھا پرایا
آج آیا ہے ملنے کو تو اپنا سا لگے ہے
ہر قطرۂ اشک آپ کے رخسارِ حسیں پر
شبنم کا چمکتا ہوا قطرہ سا لگے ہے
آغازِ محبت تو بہت خوب ہے لیکن
انجامِ محبت مجھے دھندلا سا لگے ہے
اِس دھوپ کی شدت میں تری زلفِ پریشاں
برگد کے گھنے پیڑ کا سایہ سا لگے ہے
چپکے سے دبے پائوں گزرتی ہے ہوا جب
اس وقت ترے آنے کا دھوکہ سا لگے ہے
حیرت ہے مجھے اُس کی بصیرت پہ اے مشتاقؔ
غم میرا جسے کھیل تماشا سا لگے ہے
*******************
|