* ہے مضطرب وہ آج بیاباں کی گود میں *
ہے مضطرب وہ آج بیاباں کی گود میں
گزری ہے جس کی عمر گلستاں کی گود میں
اب تک جو تشنہ کام رہی اپنی زندگی
آسودہ ہوگی صبحِ بہاراں کی گود میں
ڈھل جائے گا یہ ظلم کا سورج بھی ایک دن
کتنے شرارے بجھ گئے طوفاں کی گود میں
مجھ کو صدائیں وقت کی آکر جگا گئیں
میں سو رہا تھا خلوتِ جاناں کی گود میں
ہر لمحہ آرزوئوں کا قائم ہے سلسلہ
ہم آئے جب سے عالمِ امکاں کی گود میں
آسائشوں کی گود میں حاصل نہیں ہوا
پایا تھا جو سکون کبھی ماں کی گود میں
مشتاقؔ وہ بھی رحمتِ عالم کا فیض تھا
جب کفر کو اماں ملی ایماں کی گود میں
***************** |