* مجھے ہے جس کی تمنا ، نصیب ہو کہ نہ ہو *
مجھے ہے جس کی تمنا ، نصیب ہو کہ نہ ہو
رفاقتوں کا سہارا نصیب ہو کہ نہ ہو
ہے آج پینے کا موسم پلائے جا ساقی
کہ پھر یہ ساغر و مینا نصیب ہو کہ نہ ہو
غموں کی دھوپ میں جلنا پڑے مجھے شاید
تمہاری زلف کا سایہ نصیب ہو کہ نہ ہو
نسیمِ کوچۂ جاناں کی راہ تکتا ہوں
شمیمِ زلفِ دل آرا نصیب ہو کہ نہ ہو
مرے رقیب تو ہنس لے مری تباہی پر
کہ پھر کبھی تجھے ہنسنا نصیب ہو کہ نہ ہو
تمہاری پیاس پہ دریا بہائے جاتے ہیں
ہماری پیاس کو قطرہ نصیب ہو کہ نہ ہو
کسی نے کہہ کے یہ رخصت کیا مجھے مشتاقؔ
دوبارہ پھر ترا آنا نصیب ہو کہ نہ ہو
**************** |