* دیکھئے کیا واقعہ پھر رونما ہونے ک *
دیکھئے کیا واقعہ پھر رونما ہونے کو ہے
اب رئیسِ شہر پابندِ وفا ہونے کو ہے
دوستوں کی بدگمانی دشمنوں کی تلخیاں
کہہ رہی ہے خامشی جنگِ انا ہونے کو ہے
آسماں پر مائلِ پرواز جو برسوں رہا
پست اُس شہباز کا اب حوصلہ ہونے کو ہے
ہوگئے تم تو غمِ دنیا کے ہاتھوں جاں بلب
کیا مری بھی زندگی بے آسرا ہونے کو ہے؟
پھر چمکتی ہیں گھٹا کی گود میں چنگاریاں
لگ رہا ہے پھر کوئی محشر بپا ہونے کو ہے
قاتلانِ وقت کی اک بھیڑ ہے چاروں طرف
جانے کیا شہرِ اماں میں حادثہ ہونے کو ہے
وقت کی سرخی ہمیں مشتاقؔ دیتی ہے پیام
ساری دنیا ایک دن راحت فزا ہونے کو ہے
***************** |