ناصر علی سیّد
یہ چند سانسیں جو دی ہیں تو ا ختیار بھی دے
کہ میرے ہونے کا اب مجھ کو اعتبار بھی دے
تھکن بلا کی سفر سے ہے ، جسم ٹوٹتا ہے
شکستہ ناؤ کسی گھاٹ اب اتار بھی دے
فلک کو پوری خوشی کب کسی کی بھاتی ہے
گلوں کو رنگ بھی ،خوشبو بھی دے تو خار بھی دے
کھلائے پھول کچھ ایسے کہ کھل اٹھے چہرہ
پہ رت ہے ایسی جو اند سے مجھ کو مار بھی دے
تیرے ہی بس میں ہے خلّا ق پالنے والے
دلوں کو چین بھی دے صبر بھی قرار بھی دے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸