ناصر علی سیّد
’’ در و دیوار پہ حسرت کی نظر ‘‘سے پہلے
کیوں بدن چور ہو ۱ میرا سفر سے پہلے
بعد میں نکلی ہے جاں اس جسد ِ خاکی سے
چند تصویر ِ بتاں نکلی ہیں گھر سے پہلے
اب تو ہر شخص نے چہرے پہ لہو پہنا ہے
کون مقتل میں تھا اس خاک بسر سے پہلے
اب جو آباد ِ محبت ہوں ، تھا برباد بہت
بور آتا ہے شجر پر بھی ثمر سے پہلے
اب بھی سنتا ہوں وہ آواز، تو کھل اٹھتا ہوں
اب بھی دل جھکتا ہے اس در پہ نظر سے پہلے
جو نہ کرنا تھا محبت میں وہی کر گذرے
رہن رکھ دی ہے انا کاسہ ٔ سر سے پہلے
کیا میں آئندہ کو ماضی کی گواہی دوں گا
اس نے کاٹی ہے زْ بان دست ِ ہنر سے پہلے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸