ناصر علی سیّد
شام سمے اب لگتا ہے سب دھوکا ہے
صبح سویرے میں نے جو بھی سوچا تھا
جس کے سحر میں سانسیں گروی رکھی ہیں
وہ ساحر بھی دھوپ چڑھے کا سپنا تھا
وہ دو آنکھیں گھر سے جب ہمراہ چلیں
پھر تو تپتا رستہ ، ٹھنڈ ا سایہ تھا
خود ہی شہر کی سمت مڑا تھا گاؤں سے
جانے پھر کیوں اس کو مْڑ مْڑ تکتا تھا
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸