وفورِ شوق میں اس نے سفر ارادہ کیا
وہ پیاس اوڑھ کے سویا لہو لبادہ کیا
وہ کیسے لوگ تھے بچے کا صبر بھی تھا کمال
گلے پہ تیر بھی کھایا نہ لب کشادہ کیا
مرے تھے حق کے لیے وہ تو کام انھی کا تھا
وہ آلِ احمدِ مرسل تھے پورا وعدہ کیا
وہ سر بریدہ بدن خوشبوئیں لٹاتے رھے
یوں داستانِ وفا تھی جسے ذیادہ کیا
وہ سرخوشی تھی محبت کی اور کیا شے تھی
ھوائے دشت کو جس نے مثالِ بادہ کیا
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸