غزل
گلشن میں گل کھلے تھے کہ جشنِ نمود تھا
تھا سرخ زرد کو ئی تو کوئی کبود تھا
میں ڈھونڈتا رہا جس متاعِ عزیز کو
یا للعجب کہ میرا وہ ا پنا وجود تھا
جلوہ گریء حسن طلبگارِ جلوہ بیں
مقصود تھا ظہور میں بہر ِ شہود تھا
میرے ہی دم قدم سے ہیں آباد رونقیں
جب میں نہ تھا یہاں تو جہاں میں جمود تھا
تھی بحر و بر میں گر تو وہ تھی ایک خامشی
نے سوز و سازِ نغمہ نے رقص وسرود تھا
سودا خطا کا شاعر نہ کبھی سر سے جا سکا
ہائے و ہ ولولہ کہ رہینِ قیود تھا
ہدایت اللہ شاہ شاعر