donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Raza Naqvi Wahi
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* در پیش اچانک جو ہوئی ایک ضرورت *
ریل کا سفر
 رضا نقوی واہی

در پیش اچانک جو ہوئی ایک ضرورت
واہیؔ سے ہوئی ریل پہ چڑھنے کی حماقت
آدھمکی ذراوقت سے پہلے ہی وہ گاڑی
واہیؔ نے گھڑی دیکھی تو لاحق ہوئی حیرت
حیرت تھی کہ تعجیل کی کیا وجہ ہے آخر
تاخیر تو ہے ریل کی دیرینہ روایت
القصہ ٹکٹ منزل مقصود کا لے کر
اسباب لئے دوڑ کے پہنچا وہ بہ عجلت
آگے سے بھی پیچھے سے بھی کھاتا ہوا دھکے
داخل ہوا اک چھوٹے سے ڈبے میں بہ دقت
ڈبہ تھا کہ اک گنج شہیداں کا نمونہ
تھوڑی سی جگہ تنگ تر از گوشہ تربت
اسباب پہ بیٹھا تھا کوئی ٹانگ اڑائے
کھڑکی پہ کھڑا تھا کوئی دیوار کی صورت
اس بھیڑ میں گنجائش الفاظ کہاں تھی
الفاظ بھی ہونٹوں سے نکلتے تھے بہ دقت
تھا دم بخود اک گوشے میں سمٹا ہوا واہی
کم بخت کو تھی سانس کے لینے کی ضرورت 
اور سانس کے لینے کا نہ تھا کوئی بھی امکاں
تھی بند ہوا اوکسیجن کی تھی یہ قلت
تھے ایک بزرگ اس کے مقابلے میں جو بیٹھے
دیکھی نہ گئی ان سے جو واہی ؔ کی یہ حالت
فرمانے لگے آپ کہاں جائو گے بھیا
برداشت بھی کر پائو گے رستے کی صعوبت
یہ ریل نہیں حضرت سوداؔ کی ہے گھوڑی
دوروز میں طے کرتی ہے اک دن کی مسافت
کل اس کو پہنچنا تھا جہاں آج ہے پہنچی
چوبیس پہر لیٹ ہے اللہ ری سرعت
میں اپنی تباہی کا بیاں کیا کروں بھیا
پٹنہ میں تھی کل میرے مقدمے کی سماعت
پٹنہ ہے مگر آج بھی دلی کی طرح دور 
روتی ہے مری شامت اعمال کو قسمت
یہ سنتے ہی کان اس کے کھڑے ہو گئے فوراً
کی عرض کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا حضرت
میں نے یہ تو سمجھا تھا کہ ہے وقت پہ آئی
چوبیس پہر لیٹ؟ قیامت ہے قیامت
بولے وہ بزرگ آپ بڑے سادہ ہیں بھیا
ہم لوگ کسی کام میں کرتے نہیں عجلت
معلوم نہیں آپ کو یہ نکتہ تاریخ؟
جو قوم کی خصلت ہے وہی ریل کی خصلت
وہ ریل کی رفتار ہو یا وقت کی رفتار
اس ملک میں دونوں کو تساہلی کی ہے عادت
پابندیٔ اوقاف میں ہے رنگ غلامی
آزاد ہوا ہند تو کیا اس کی ضرورت
٭٭٭
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 393