donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Raza Naqvi Wahi
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* آخرش دنیا سے واہی کا ہوا جب انتقال *
انتقال کے بعد
رضا نقوی واہی

آخرش دنیا سے واہی کا ہوا جب انتقال
اس کے گھر والوں پہ کیا گذری نہ پوچھو اس کا حل
یہ خبر جب حلقہائے شہر میں پھیلی تمام
اس کے گھر پر ہو گیا اہلِ ادب کا ازدہام
چند اک احباب کے چندے سے جب آیا کفن
غسل میت دے کے تب ڈھانپا گیا اس کا بدن
ایک شاعر اشکباری جن کی گوہر بار تھی
لاش ابھی اٹھی نہ تھی ، نظم ان کی اک تیار تھی
قطعۂ تاریخ ایک شاعر نے بر جستہ کہا
 نام سے مرحوم کے نکلا تھا پورا مادّہ
ریڈیو نے نشر کی جب یہ خبر چوپال سے
 تعزیت کے تار آئے سندھ سے بنگال سے
انجمن میں تعزیت کا ایک جلسہ بھی ہوا
جا بجا مرحوم کی سیرت کا چرچا بھی ہوا
ماہناموں نے نکالے خاص نمبر خوب خوب
تھا یہ رونا ہو گیا سورج ظرافت کا غروب
بعد مُردن حق بچارے کا ادا ہونے لگا
اس کے فن پر ناقدوں کا تبصرہ ہونے لگا
ایک ناقد نے یہاں تک بڑھ کے لکھا جوش میں
اس کا فن اکبرؔ سے بالا تر تھا تن میں توش میں
اک محقق گھر پہ اس کے رات دن جانے لگے
اس کے اُجڑے گھر کی تصویریں اتروانے لگے
اس کی تحریروں کا متن و حاشیہ دیکھا کئے
اس کی نظموں کا ردیف و قافیہ دیکھا کئے
کاوشِ تحقیق سے ان کی بُرا تھا سب کاحال
کرتے پھرتے تھے محلے میں یہ اک اک سے سوال
کون سا روغن کیا کرتا تھا استعمال وہ
بھات کھاتا تھا کہ دونوں وقت روٹی دال وہ
نوٹ بک میں اس کی جو کاغذ ہے کتنے دن کا ہے
جس قلم سے رات دن لکھتا تھا وہ کس سِن کا ہے
ایک لیڈر نے بنائی اک کمیٹی شاندار
اس میں طے پایا کہ قائم ہو اک ایسی یاد گار
جس سے نام حضرت واہیؔ سدا قائم رہے
گلشن طنز و ظرافت کی ہوا قائم رہے
اور جاری ہو گیا چند وں پھر تو کاروبار 
خوب چمکا پیٹ کے بندوں کا پھر تو کاروبار
بمبئی سے اور دلی سے کئی اک پبلشر
اُڑکے طیاروں سے آئے اور پہنچے اس کے گھر
اس کے مجموعوں کے حق ملکیت کے واسطے
اپنے نقصان اور اس کی منفعت کے واسطے
کچھ حقوق اپنے جتائے کچھ دلیلیں پیش کیں
الغرض سب نے ہزاروں ہی سبیلیں پیش کیں
تھا الیکشن کا زمانہ اس لئے سرکار کی
مرنے والے پر نظر جانے لگی کچھ پیار کی
ہو گئی تھوڑی سی تبدیلی مروّج رول میں
اس کے دو بچے فری پڑھنے لگے اسکول میں
الغرض اک موت سے پیدا ہوئی وہ زندگی
مشعل شعر و ادب کی بڑھ گئی تا بندگی
روح واہیؔدیکھتی تھی دور سے یہ انقلاب
اس کی حیرت بن رہی تھی اک سوال بے جواب
زندگی بھر کوئی جس کا پوچھنے والا نہ تھا
جس کے فن کا جام پی کر کوئی متوالا نہ تھا
صبح سے تا شام جو اپنا ظلم گھِستا رہا
رات دن حالات کی چکی میں جو پستا رہا
ناقدوں نے مڑ کے بھی جس کی طرف دیکھا نہیں
جس کے ماتھے کا پسینہ وقت نے پونچھا نہیں
آنسوئوں کی آج برکھا ہے اسی کے نام پر
آفریں صد آفریں اس شفقتِ ایام پر
دم نکلتے ہی چڑھا سب پر عقیدت کا بخار
قدر داں حضرات کو شاید یہی تھا انتظار
کر دیا اس موت نے ثابت یہ ہم پر کم سے کم
زندگی سے موت بہتر ہے، پئے اہل قلم
اہل فن کو موت سے ہر گز نہ ڈرنا چاہئے
بلکہ ممکن ہو تو کوشش کرکے مرنا چاہئے
٭٭٭
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 476