* اتفاقاً ہم سفر تھے ریل میں دو وضعد *
قبلہ آپ!
رضا نقوی واہی
اتفاقاً ہم سفر تھے ریل میں دو وضعدار
جن کے ہر انداز میں تھی اک ادائے انکسار
صبح دم جب رفع حاجت کی خلش پیدا ہوئی
ہاتھ میںلوٹا لئے دونوں ہی اُٹھے ایک بار
وضعدار ، پیش قدمی میں رکاوٹ بن گئی
ایک ہی بیت الخلاء تھا اور دو امید وار
ایک نے سر کو جھکا کر دوسرے سے یہ کہا
قبلہ پہلے آپ جائیں ، میں کروں گا انتظار
دوسرے صاحب نے فرمایا ، نہیں قبلہ نہیں
ایسی جرأ ت کر نہیں سکتا کبھی یہ خاکسار
پہلے ہولیں آپ فارغ ، بعدہ جائوں گا میں
میری خاطر آپ نا حق ہوں نہ زحمت سے دوچار
صاحب اول نے فرمایا کہ یہ ممکن نہیں
آپ پرلے جائوں سبقت یہ نہ ہو گا زنہار
دیر تک چلتی رہی اک دوسرے کے درمیاں
’’ قبلہ پہلے آپ‘‘ کی حُجّت بہ عجز و انکسار
کوئی سبقت کے لئے تیار ہوتا ہی نہ تھا
گرچہ فطرت کا تقاضا ہو رہا تھا بار بار
دونوں ہی دہلیز پر پہلو بدلتے رہ گئے
وضعداری توڑ کر ہونا تھ کس کو شرمسار
دَم بہ دَم بڑھتا چلا جاتا تھا آنتوں پر دبائو
مادّہ کے بوجھ سے اعصاب میں تھا انتشار
ضبط اور برداشت کی بھی آخرش ہوتی ہے حد
رُخ سے دونوں کے اذیت ہو رہی تھی آشکار
صاحبِ اول مگر بے چین تھے حد سے سوا
دونوں ہاتھوں سے کمر کو تھامتے تھے بار بار
دفعتاً بابِ اجابت ایک جھٹکے سے کھلا
بڑھ کے اُن کی وضعداری پہ کیا فطرت نے وار
ایک لمبی سانس لے کر ،رکھ کے لوٹا ایک طرف
دوسرے صاحب سے بولے وہ بزرگ وضعدار
پیش قدمی کیجئے قبلہ ، تکلف بر طرف
میں تو فارغ ہو چکا میرا نہ کیجئے انتظار
٭٭٭
|