تغیّر ہے کہ دل دہلا رہا ہے
نظام دہر بدلا جا رہا ہے
وہ لفظوں سےفقط گرمارہا ہے
تعطّل ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے
ہراک تارنفس یادوں نےچھیڑا
کوئ دھیمےسروں میں گارہاہے
یزید وقت مت بنیۓکہ اب تک
کیۓ پراس کی جگ شرمارہا ہے
تصادم ہے شعار زندگی اب
جسے دیکھووہی ٹکرا رہا ہے
لگایا آگ پہلے پھر ہوا دی
جتن سےپھروہی بجھوارہاہے
نظرآنے کو ہےچہرہ حقیقی
نقاب رخ کوئ اٹھوا رہا ہے
دکھاکرخواب منزل کےوہ ہمکو
ابھی تک خاک ہی چھنوارہاہے
سجایا توڑ کےڈالی سےجس کو
وہ گل گلدان میں مرجھا رہا ہے
الاہی خیر ہو اپنوں کی یہ دل
نہ جانےکس لیۓگھبرا رہا ہے
رضیّہ دہر ہےمہماں سراۓ.....
کوئ آیا تو کوئ جارہا ہے
رضیہ کاظمی
*******************