زباں پہ بات لبوں پر وہی ترانا تھا
وہ ذہن کیسےبدلتا کہ باغیانہ تھا
ادھرتھاصرف وہ تنہاادھرزمانہ تھا
سوال بھی تھے وہی مدّعا پرانا تھا۔۔
فضا میں ہونےلگی یک بیک گھٹن محسوس
اور اس کے بعد ، فقط آندھیوں کو آنا تھا
خود اپنی سست روی سےبچھڑ گۓہم ہی
ہر اک صداۓ جرس پر مگر ر وا نہ تھا
جلا تو آج وہ جلنا مگر مقدّر تھا۰۰۰۰۰۰
بنا ہی زد پہ وہ بجلی کے آشیانہ تھا
بڑےبڑے ہوۓ اس طرح خانماں برباد
نہ چھت سروں پہ کوئ اورنہ شامیانہ تھا
سنا بھی تم نے سربزم غیر نےجو کہا
ہمارےحق میں ہر اک لفظ تازیانہ تھا
ملا وہ راہ میں بالکل ہی اجنبی کی طرح
کچھ اور صبر مرا اس کو آزمانا تھا
رضیّہ صفحۂ ہستی پہ تھی وہ حرف غلط
کہ یوں ہی کاتب تقدیر کو مٹانا تھا
رضیہ کاظمی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸