آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ایک طرحی غزل
عکس بھی اب آئنے پر بار ہے
نازکی بھی کیا کوئی آزار ہے
سر نہیں ہے، ہاتھ میں دستار ہے
اب تو عزت کا یہی معیار ہے
اور ہی اس دور کا معیار ہے
اب تونگر صاحبِ کردار ہے
جو بزعمِ خود بہت ہشیار ہے
آپ اپنی راہ کی دیوار ہے
زندگی سے ہر کوئی بیزار ہے
ہر کسی کو ایک ہی آزار ہے
کیوں زمانہ در پئے آزار ہے
کیا ہمارے سر پہ بھی دستار ہے
تیرگی میں آئنہ بیکار ہے
دیکھنے کو روشنی درکار ہے
اس کو اپنے آپ سے بھی پیار ہے
آئنے کو آئنہ درکار ہے
پوچھتا پھرتا نہ ہو سورج بھی کل
کیا کسی کو روشنی درکار ہے
مانگتے ہیں لوگ بارش کی دعا
اور میری فصل اب تیار ہے
ہو رہی ہے جنگ اور کھلتا نہیں
کون کس سے برسرِپیکار ہے
دشمنوں پر خوف طاری ہو گیا
یہ قلم ہے یا کوئی تلوار ہے
ہاتھ اس کے سامنے لہرائیے
جس کا دعویٰ ہے کہ وہ بیدار ہے
سب بزعمِ خود فرشتہ ہیں فصیح
آدمی کی جستجو بیکار ہے
دے رہا ہے کل کی خبریں یہ فصیح
ہاتھ میں جو آج کا اخبار ہے
شاہین فصیح ربانی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸