* لاکھ خالی رہے منظر کوئی *
غزل
لاکھ خالی رہے منظر کوئی
مجھ میں بس جاتا ہے آکر کوئی
نیند کے طاق سے خوابوں کے چراغ
لئے جاتا ہے اٹھا کر کوئی
ایک پہچان تھی خود سے اپنی
لے گیا وہ بھی بہار کر کوئی
بھولتے رہئے کسی پَل کچھ بھی
یاد آجاتا ہے اکثر کوئی
ہر کے قصے میں دکھوں کی کشتی
ہر ہتھیلی میں سمندر کوئی
ایک منزل ہے رکاوٹ جیسی
راستے میں نہیں پتھر کوئی
ہاتھ بھی سرد ہوئے دل کی طرح
کیا کرے ہاتھ ملا کر کوئی
٭٭٭
|