* ہر چہرہ سلگتے ہوئے قطروں میں بٹا ہ *
غزل
ہر چہرہ سلگتے ہوئے قطروں میں بٹا ہے
ہم سب کو سمندر سا کوئی ٹوٹ رہا ہے
وہ بجھتے چراغوں کا عَلَم لے کے چلا تھا
سنتے ہیں اُجالوں نے اُسے لوٹ لیا ہے
ناحق اُسے بے جان دعائوں میں ٹٹولا
کیا مجھ کو خبر میری ہتھیلی میں چھپا ہے
اب تم کو یہاں کوئی بھی آواز نہ دے گا
ہر شخص تمہاری ہی طرح ٹوٹ چکا ہے
تم ویسے بھی ٹوٹے سے رہا کرتے ہو شاید
باہر نہ ابھی نکلو، بہت تیز ہوا ہے
٭٭٭
|