* محبت دائمی سکھ ہے *
محبت دائمی سکھ ہے
کہ جس کو موت کی گھڑیاں
کبھی کم کر نہیں سکتیں
یہ موسم اک دفعہ آئے
تو پھر آ کر ٹہر جائے
حسیں شاداب سی کلیاں
نگاہوں میں سماں جائیں
تو پھر یہ مر نہیں سکتیں
خیالوں کی روانی میں کہ جیسے بہتے پانی میں
کنول کھل جائیں خوابوں کے
تو فطرت مسکراتی ہے
اشارہ کر کے تاروں سے
چھلکتے آبشاروں سے
مدھر سرگوشیاں کر کے ہمیں رستہ دکھاتی ہے
یہ رستہ کس قدر حیران کن منظردکھاتاہے
اسی رستے پہ انساں خود کو پہلی بار پاتاہے
محبت کو سزاکہنے سے پہلے سوچ کر رکھنا
کہ جو اس سے بچھڑ جائے
اسے منزل نہیں ملتی
بکھر جائیں جو بن کر خاک پھر محفل نہیں ملتی
محبت دائمی سکھ ہے
شائستہ مفتی
|