* اٹھائے پھرتی ہوں اپنی صلیب کاندھو *
اٹھائے پھرتی ہوں اپنی صلیب کاندھوں پر
کھلے ہیں پھول خزائوں میں سرد شاخوں پر
فضا میں گھنٹیاں بجنے لگی ہیں میرے لیے
کہ محوِ رقص ہوں تقدیر کے اشاروں پر
وہ اپنے خواب سے منکر ہوا تو کیا پایا
اجاڑ دیس میں پھرتا ہے سرد راہوں پر
مجھے گدائی میں رہنے دے اے مرے ہمدم
کہ گونجتا ہے ہر اِک لفظ میرے کاسوں پر
میں صبر سے ہی گزاروں گی پیاس کا صحرا
دلِ ثبات تو زندہ ہے اب دلاسوں پر
میں پاس رکھتی ہوں اُن حوصلوں کا جو اب تک
سنے ہیں شکوے دھرے ہاتھ اپنے کانوں پر
مجھے تو اُس کی طلب ہے جو لامکان میں ہے
جو ساز بن کے کھنکتا ہے دل کے تاروں پر
*****
|